حرمین کی پکار
₨500
مقامات مقدسہ کے خلاف کفار کی سازشوں کو بے نقاب کرنے والی تہلکہ خیز کتاب، تحقیقی جائزے ، تصاویر ,چارٹ اور نقشے ، مستند اعدادو شمار اور ہوشربا انکشافات۔
تاریخ اسلام میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے لیے غم انگیز اور روح فرسا تھے، لیکن موجودہ صدی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہو گیا ہے جو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد سب سے زیادہ رنج والم کا باعث اور فکر وتردو کا سبب ہے۔ اس کے آگے سقوط بغداد کا سانحہ بھی ہلکا ہے اور خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی اس سے کمتر مصیبت ہے اور وہ ہے : ” جزیرہ عرب کی مقدس سرزمین پر یہود و نصاریٰ کی سامان حرب اور لا ولشکر کے ساتھ آمدہ ۔“ اس واقعہ کی ابتدا اس صدی کے وسط میں جزیرہ عرب کے جنوبی کنارے پر یہودیوں کی خود مختار ریاست کے قیام سے ہوئی تھی اور قبلہ اول کے سقوط سے ہوتے ہوتے اب نوبت حرمین شریفین کے گردا گرد مسلح افواج کے مستقل فوجی اڈوں تک پہنچ گئی ہے۔ عالم اسلام اسی طرح بے حس اور اجتماعی مسائل سے کنارہ کش رہا تو آنے والا کل نجانے کیادن دکھائے ۔
اس بارے میں خلیجی حکمرانوں کی غفلت اور خاموشی تو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ ان کو دنیا میں لگانے اور جہاد فی سبیل اللہ سے دور کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندیاں اور دور رس تدبیریں کی گئی تھیں لیکن اس مسئلے سے جو سارے عالم اسلام کا مشترک اور اہم ترین مسئلہ ہے، معمورۂ ارض پر بسنے والے سوا ارب سے زیادہ مسلمانوں کی بے تو جہی اور بار بار انتباہ کے باوجود مسلسل کنارہ کشی انتہائی افسوسناک اور حسرت انگیز ہے۔ نجانے وہ کسی معجزہ کے ظہور کی آس لگائے ہوئے ہیں یا تازیانہ قدرت کے منتظر ہیں کہ اپنی دنیا میں مست، اپنے لیے سامان عیش و راحت مہیا کرنے میں مگن اور چند روز و حیات فانی کوزیادہ سے زیادہ لطف اندوز بنانے کی دُھن میں غرق ہیں۔ یہ سمجھے بغیر کہ مسلمان کی دنیا اس وقت تک نہیں بن سکتی جب تک وہ دین کے تقاضوں کو دنیا کی مصلحتوں پر مقدم نہیں کرے گا۔ اور یہ جانے بغیر کہ انہیں اپنے گرد و پیش جو عارضی امن و امان ، عیش وسکون اور دنیا کے بنے ہوئے نقشے نظر آرہے ہیں، یہ اس وقت تک پائیدار اور عافیت وسلامتی کے ضامن نہیں ہو سکتے جب تک خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے سات آسمانوں کے اوپر سے اتارے ہوئے مقدس و مظہر دین کے تحفظ و پاسبانی کے لیے قربانیاں نہیں دی جائیں گی۔ اس میں شک نہیں خدائے قہار و مقتدر اپنے دین کی حفاظت کے لیے خارق العادت اسباب و واقعات بھی وجود میں لے آتا ہے، لیکن اس کے بندے بھی حسب حیثیت جدو جہد کے بغیر اس فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتے جو ان پر عائد کیا گیا ہے۔ غیبی نصرت الہی پر مشتمل ما فوق الفطرت واقعات کا ظہور نہ دنیا میں کسی کے لیے غفلت وستی کا جواز بن سکتا ہے، نہ روز قیامت اس سوال کا جواب بن سکتا ہے جو ہر ایک سے اس حالت میں کیا جائے گا کہ اسکے اور اس کے خالق و مالک کے درمیان کوئی آڑ نہ ہوگی۔ خطرہ یہ محسوس ہوتا ہے اگر اس مسئلے پر عالم اسلام یوں ہی خاموش رہا تو آنے والی نسل سرے سے اس بات سے ہی بے خبر نہ رہ جائے کہ اس کے آبا و اجداد کن رفعتوں کے حامل اور کن عظمتوں کے امین تھے اور ان سے کون سی ایسی چیز چھین لی گئی تھی جس کی بازیابی کی کوشش اب ان کے وارثوں پر فرض ہے؟ اندیشہ ہے مسلمان جس طرح اندلس کو بھلا بیٹھے۔ بیت المقدس پر کف افسوس تو ملتے ہیں، لیکن اسرائیل کے زیر قبضہ دیگر مسلم علاقوں کی انہیں چنداں فکر نہیں ۔ کشمیر کا غم تو ان کو ہے لیکن ہندوؤں کے پاس رہ جانے والے وہ تمام طویل و عریض خطے جو مغلیہ سلطنت میں شامل تھے ، ان کے جاتے رہنے کا انہیں احساس بھی نہیں۔
اسی طرح کہیں کل وہ جزیرہ عرب کے دیگر مقدس خطوں میں یہود و نصاریٰ کی ناجائز موجودگی کو معمول کا واقعہ اور حوادثات زمانہ کا حصہ سمجھ کر ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کرنے لگ جائیں۔ لہذا اس مجرمانہ خاموشی کا جمود توڑنے اور عالم اسلام کو اس اہم ترین فریضہ کی ادائیگی کے لیے کمر بستہ ہو جانے کی ترغیب کے لیے یہ مجموعہ مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں آپ کو اپنوں کی سادگی اور بے حسی کا شکوہ بھی ملے گا اور غیروں کی چالا کی کا خاکہ بھی۔ اس میں باوثوق حوالوں سے نقل کی گئی مستند معلومات بھی ہیں اور محققانہ تجزیے بھی۔ مرض کی تشخیص بھی ہے اور علاج کی تجویز بھی۔ یہ سب کچھ پیش کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اس وقت مسلمانوں میں دو قسم کے خیالات کے لوگ پائے جاتے ہیں : ایک تو وہ جو حج و عمرہ کا سفر بخیر و عافیت کر لیتے ہیں تو انہیں یقین ہی نہیں آتا یہود و نصاریٰ کی طرف سے اتنی بڑی پیش قدمی اور دست درازی ہو چکی ہے۔ اس مجموعے میں درج حقائق ان کی آنکھیں کھولنے اور سر پر آپہنچنے والے طوفان کے سدباب کے لیے کمر بستہ ہو جانے کے لیے کافی ہونے چاہیں۔ دوسرے وہ جو اس سانحے کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن انہیں اس سلسلے میں اپنے اوپر لاگو ہونے والے فرائض کا کوئی واضح تصور نہیں وہ اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؟ یہ مجموعہ ان کی رہنمائی کرے گا کہ اُمت مسلمہ کا ہر فرد اپنی اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق حق و باطل کے درمیان بریا اس معرکے میں شریک ہو کر بہت کچھ کر سکتا ہے۔ علماء اور واعظین ترغیب و تحریض کے ذریعے ، تاجر اور سرمایہ دار اللہ کے راستے میں جان لگانے والوں پر مال خرچ کر کے، نوجوان اپنی پاکیزہ جوانیوں کو بارگاہ الہی میں قربانی کے لیے پیش کر کے اور جو کچھ بھی نہ کر سکے وہ اللہ والوں کی خدمت اور ان کے لیے فتح و نصرت کی دعا کر کے اس مبارک جد و جہد میں حصہ ڈال سکتا ہے۔
آخر میں یہ عرض کر کے بات ختم کی جاتی ہے کہ حرمین کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اُمت مسلمہ اکٹھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اتحاد و اتفاق کے داعی حضرات کو اس پر خصوصیت سے توجہ دینی چاہیے۔ ہم نے اس پر جو کچھ لکھا ہے۔ یہ محض نوحہ و ماتم نہیں ، نہ ایسی فریاد اور واویلا جو غفلت سے بیدار کرے تو احساس کمتری میں گرفتار کرا دے۔ یہ رگ و پے میں برق تاباں دوڑا دینے اور جسم و جاں میں حرارت فراواں پیدا کر دینے والی دعوت ہے جو امت مسلمہ میں بیداری کی روح پھونکنے ، غلبہ دین کے لیے سر بکف نکل کھڑے ہونے اور اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے اپنا سب کچھ وار دینے کا جذبہ اجاگر کرنے پر ابھارتی ہیں۔ اسے صرف مسئلہ خلیج کے تناظر میں نہ پڑھا جائے، کیونکہ مسئلہ صرف حرمین شریفین کا نہیں، بیت المقدس اور حرم ابراہیمی کا بھی ہے۔ قرطبہ کی جامع مسجد اور فیض آباد کی بابری مسجد کا بھی ہے۔ ہر اس مقدس مقام کا ہے جہاں کبھی تکبیر وتہلیل کی زمزمہ بار صدا میں گونجتی تھیں ، آج وہاں ویرانی اور سناٹوں کا راج ہے۔ ہر اس پاک خطے کا ہے جو کبھی اہل توحید کے سجدوں سے آباد تھا، آج مشرکوں اور خدا کے غضب کے مستحق نا فرمان یہود و نصاریٰ کے غاصبانہ قبضے میں ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک مسلمان عبادات کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کو بھی فرض نہیں سمجھتے۔ سجدہ کے آداب کا لحاظ رکھنے کے ساتھ سجدہ گاہ کی حفاظت کے آداب کا خیال نہیں کرتے اور جس دن انہوں نے ان آداب کا خیال رکھنا شروع کر دیا، اس دن سے ان کے عروج کا سفر دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ کیونکہ تاریخ عالم شاہد ہے جس دور میں بھی یہ صفت مسلمانوں میں پیدا ہوگئی، پھر انہیں کوئی قوت نہ جھکا سکی ۔ پھر کامیابیوں نے ان کے قدم چومے ہیں۔ کامرانی و شادمانی ان کے گلے کا ہار بنی ہے اور فتح و غلبہ ان کے سینوں کا تمغہ ۔ خدا کرے یہ ہار پھر ان کے گلے کی زینت بن جائے اور ایسے تمغوں سے ان کا سینہ پھر سے بج جائے ۔
آمین یا ربّ الحرمين، آمين يا رب الشهداءوالمجاهدين۔
شاہ منصور
Book Format |
Hard Copy |
---|---|
Book Author |
مفتی ابو لبابہ شاہ منصور |
Reviews
Clear filtersThere are no reviews yet.