کتاب الجغرافیہ

1,400

فن ِجغرافیہ ، نقشہ خوانی ، سیاسی جغرافیہ ، طبعی جغرافیہ ، سیاسی جغرافیہ اور قرآنی جغرافیہ پر مشتمل بیش بہا معلومات کا قیمتی خزانہ ، رنگین تصاویر ، چارٹس اور نقشوں کے ساتھ۔

434 Items sold in last day
SKU: GEOGRAPHIC-001 Category:
Description

فنِ جغرافیہ کے ساتھ فقیر سے تعلق کی کہانی بھی عجیب ہے۔ جغرافیہ کا شوق بلکہ ضرورت، سیرت و تاریخ کے مطالعے کے دوران پیدا ہوگیا تھا۔ کیونکہ جغرافیائی محلِ وقوع سمجھے بغیر فنِ سیرت و تاریخ کما حقہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ اس سے درست نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ ہرنئی کتاب کے مطالعے سے اس شوق میں اضافہ ہوتا تھا اور ہر نئےتاریخی واقعے سے گذرتے وقت اس فن کی ضرورت کا احساس بڑھتا جاتا تھا لیکن کوئی صورت ایسی نظر نہ آتی تھی کہ اس ارمان کی تکمیل ہو سکے یا یہ ضرورت پوری ہو۔ یہاں تک کہ جزیرۃ العرب سے متعلق مضامین لکھنے کا دن آگیا۔

ہوایوں کہ جزیرۃ العرب سے متعلق عالمی استعمار کے منصوبوں پر کام کرنے کا موقع ملاتو انہیں سمجھانے کے لیے نقشوں کی ضرورت پڑی۔ یہ نقشے بڑی محنت اور عرق ریزی سے تیار کیے جاتے تھے اور ان میں دی گئی معلومات اور اعداد وشمار کی صحت اور استناد کا بہت اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس سے رفتہ رفتہ اس فن سے مناسبت پیدا ہوگئی اور اس کی گہرائی اور گیرائی کی حدود اور افادیت سے کافی آگا ہی ہوئی۔ بہت سی اہم کتابیں ہاتھ لگیں اور پتا چلا کہ اہلِ عرب نے اس پر کافی کام کیا ہے اور ان کے ہاں شاہی خاندان کے افراد کو تاریخ اور جغرافیہ دونوں فنون خصوصیت سے پڑھائے جاتے ہیں۔ جہاں تک اہل ِمغرب کی بات ہے تو انہوں نے اس پر اتنی توجہ دی ہے کہ بچوں کو ابتدائی معلومات سکھانے کے لیے ایسے ایسے کھیل ایجاد کیے ہیں جن کا تصور ہمارے ہاں منتہی گر یجو یٹوں کی تعلیم کے لیے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس فن سے تعلق کا پہلا دور تھا۔ پھر نقشہ تیار کرنے کا یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ رفتہ رفتہ احقر کی عادت ہوگئی کوئی بھی انکشاف یا تحقیق تحریر کی جاتی تو اس کی تفہیم اور توثیق کے لیے ساتھ نقشہ یا تصویر ضرور لگتی۔ اس سے بات آسانی سے سمجھ میں آتی تھی اور لکھنے والا اپنی بات کی ثقاہت کے لیے مزید ثبوت کا محتاج نہ رہتا تھا۔ حتی کہ جب یہ مضامین نقشوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع ہوئے تو مقدمہ میں چند سطور کچھ یوں لکھی گئیں: “نقشےعمو مابولا نہیں کرتے لیکن خدا کی شان ! بہت سے قارئین نے بتایا کہ ان کالموں میں چھپنے والے نقشے نہ صرف یہ کہ سرگوشیاں کرتے ہیں بلکہ بولتے بھی ہیں ۔ اس زعم میں ان کا نام بولتے نقشے ایسا پڑ گیا کہ اب یہ بولیں یا نہ بولیں ، بلکہ ان میں کوئی نقشہ چھپے یانہ چھپے، ان کا نام بولتے نقشے ہی لیا اور پکارا جاتا ہے۔ اسلامی صحافت کا جو اصل مقصد ہے کہ مستند معلومات کی فراہمی کے ساتھ تعمیری ذہن سازی، اس کے لیے یہ نقشے ایسے کار آمد اور موثر ثابت ہوئے کہ پہلے کالموں کی بنیاد پر نقشے بنائے جاتے تھے، اب نقشوں کی بنیاد پر کالم لکھے جاتے ہیں”۔

اس کتاب میں زیادہ محنت اس بات پر کی گئی ہے کہ فن ِجغرافیہ کو اس طرز میں ڈھال کر پیش کیا جائے جو مدارس میں مروج ہے اور جس سے طلبہ مانوس ہیں۔ یعنی تعریف ، غرض و غایت ، اہمیت اور اقسام سے ابتدا ہو، پھر مبادیات ِفن میں نقشہ خوانی کے اصول ہوں ، پھر مقاصدِ فن میں ترتیب وارمختلف ابواب کو عقلی ومنطقی ربط کے ساتھ آگے بڑھایا جائے تا آنکہ بات خاتمہ کتاب تک جا پہنچے ۔

 اس کتاب میں جغرافیہ کی چار بڑی اقسام ہیں۔ دو تمہیدی یعنی طبعی وسیاسی جغرافیہ اور دو مقصودی ہیں یعنی تاریخی و قرآنی جغرافیہ۔ سب سے پہلے طبعی جغرافیہ رکھا گیا ہے جو جغرافیہ کی تمام اقسام کی بنیاد ہے۔ پھر سیاسی جغرافیہ اور ان دو تمہیدی ابواب کے بعد اصل مقصود یعنی قرآنی جغرافیہ۔ جہاں تک تاریخی جغرافیہ کی بات ہے تو اسے سیاسی جغرافیہ کے ساتھ نتھی کر کے پڑھایا جائے تو زیادہ بہتر رہتا ہے۔ اس لیے اس کو مستقل باب کی شکل دینے کے بجائے ان دروس کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جو اس دورے کے دوران محفوظ کیے گئے اور آواز سے کتاب میں منتقل کر کے” دروسِ جغرافیہ ” کے نام سے اس کتاب کا حصہ بنائےگئے۔ ان دروس میں آپ کو سیاسی جغرافیہ ہی نہیں ، ” الغزو الفکری” بھی ان شاء اللہ خاطر خواہ انداز میں دستیاب ہو گا۔ ۲۔ جن کتابوں سے مراجعت کی گئی ان کا نام آخر میں ترتیب وار دیا گیا ہے تا کہ مدرسین حضرات ان کے مطالعے سے اپنی معلومات کو اور زیادہ وسیع کرسکیں اور ان مآخذ و مراجع کے ذریعے انہیں مزید استفادے میں آسانی ہو۔ کتابوں کے ساتھ ان سافٹ ویئرز کی رہنمائی بھی دی گئی ہے جن کے ذریعے مغرب میں بہت آسانی سے بچوں کو فن جغرافیہ از بر یاد کروا دیا جاتا ہے۔ ان سے استفادے کو طلبہ پر لازم کر دیں۔ چند دن میں ان شاء اللہ آپ خود بہترین نتائج ملا حظہ فرمائیں گے۔

جغرافیہ پڑھنے پڑھانے والے حضرات سے درخواست ہے کہ اس فن کو آسمان اور دلچسپ بنانا ہے تو اسے بڑے نقشے پر چھڑی کی مدد سے (یا ممکن ہو تو پروجیکٹر پر لیزر رلائٹ کی مدد سے ) پڑھائیں (پروجیکٹر نہ ہو تو بڑے سائز کا کمپیوٹر لے لیں) اس طریقہ سے وقت بھی کم خرچ ہوگا اور تفصیلات بھی بآسانی ذہن نشین ہوں گی۔ نقشے کے بغیر جغرافیہ پڑھانا ایسا ہی ہے جیسا بچوں کوکوہ قاف کی داستان سنانا۔ جس میں آخر تک سنے والوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کہانی کا مرکزی کردار جن تھا تو کس پہاڑ پر رہتا تھا یا پری تھی تو کون سی پہاڑی پر بستی تھی ؟ بڑے سائز کے نقشے اور گلوب درس گاہ میں جا بجا لگا دیں تا کہ طلبہ سبق کے بعد ان کا مطالعہ کرسکیں۔ ہر شہر کے اردو بازار سے بآسانی یہ نقشے اور گوب مل جاتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب کے ہر باب کے آخر میں اس کے متعلق سولہ سولہ صفحات رنگین تصویروں اور جدید نقشوں سے مزین کر کے دیے گئے ہیں۔ آپ کہیں نہ جائیں، اپنی صفحات پر پورا جغرافیہ پڑھا سکتے ہیں۔ نہ ہینگ لگے گی نہ پھٹکری اور ان شاء اللہ رنگ چوکھا ہی چوکھا آئے گا۔

 ایک اور چیز جو طلبہ کو متوجہ کرنے اور مطمئن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں مقدمات ِفن اور طبعی و سیاسی جغرافیہ پڑھاتے وقت مسلسل ذہن بناتے ر ہیں کہ اس فن سے اصل مقصود تاریخی اور قرآنی جغرافیہ ہے۔ ان دونوں کو سمجھنے کے لیے طبعی وسیاسی جغرافیہ سمجھنا ضروری ہے۔ اس لیے ان دونوں کو توجہ سے ضبط کریں تا کہ اصل مقاصد فین میں رسوخ حاصل ہو سکے۔ ساتھ ساتھ تاریخی قر آنی جغرافیہ کا ہلکاہلکا ذائقہ بھی چکھاتے جائیں۔ اس سے انشاء اللہ دلچسپی آخرتک برقرار رہے گی اور فن بھی ذہن نشین ہوتا جائے گا جو ہمارے طلبہ کو تاریخ و سیاست اور خطابت وصحافت میں بہت کام آئے گا۔

مدرسین حضرات ہر گز یہ نہ سوچیں انہوں نے یہ فن خود نہیں پڑھا تو طلبہ کو کیسے پڑھائیں گے؟ یہ کتاب مطالعہ کریں ۔ ان میں دی گئی معلومات کو آخر میں دیے گئے تصویری صفحات پر منطبق کریں۔ ساتھ دی گئی سی ڈی میں سے آڈیو سنیں اور ویڈیو دیکھیں۔ مشہور مآخذ و مراجع بھی ساتھ رکھ لیں۔ مشہور سافٹ ویئر ز پر چند گھنٹوں کی مشق کر لیں۔ انشاء اللہ انہیں پڑھاتے وقت کوئی دقت نہیں ہوگی بشر طیکہ انہوں نے اوپر دی گئی ہدایات کو ملحوظ رکھا، یعنی کم از کم کتاب کے باب کے آخر میں دیے گئے رنگین صفحات سامنے رکھ کر پڑھایا اور تاریخی وقرآنی جغرافیہ کے لیے شروع سے ذہن بنانے کے ساتھ ان کا ہلکا سا ذائقہ بھی چکھاتےرہے۔

كتاب الجغرافيه کی نظرِ ثانی کے دوران بہت سے ایسے مقامات آئے جن کے متعلق شیخ الاسلام حضرت مولانامحمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کےمقبولِ عام سفر ناموں کے سلسلے “جہان ِدیدہ”، ” دنیامر ےآگے” اور” سفر در سفر” میں جابجا انتہائی مفید معلومات اور چشم دید مشاہدات ملتے ہیں۔ ان کو حسب موقع شامل کرکے حوالہ دے دیا گیا ہے۔

آخرمیں میری گذارش ہے کہ اپنی طرف سے اس کتاب کو آسان اور جامع بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ جو چیز حرف میں ہے وہی رنگین صفحات میں نقوش میں ہے۔ تمام مآخذ اور حوالہ جات بھی آخر میں دیے گئے ہیں تا کہ از خود مزید مطالعہ کر کے اس فن میں بصیرت حاصل کی جاسکے۔ کئی مرتبہ “نظر ِثانی” بھی کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کسی چیز کمی ، ابہام یا غلطی موجود ہوتو اس عاجز کو ضرور مطلع فرمائیں۔ اللہ تعالی اس کے شایان ِشان اجر آپ کو عطا فرمائیں گے۔

شاه منصور

جمادی الاولی: 1434ھ

Additional information
Book Format

Hard Copy

Book Author

مفتی ابو لبابہ شاہ منصور

Reviews (0)
0 reviews
0
0
0
0
0

There are no reviews yet.

Be the first to review “کتاب الجغرافیہ”

Your email address will not be published. Required fields are marked *